مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی

حجاب اکسیر ہے آورۂ کوئے محبت کو
میری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی

گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لئے ذلت ہے کار آشیاں بندی

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی!
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟

زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی!

مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو!
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی

Posted on May 10, 2011